I
intelligent086
Guest
تین گروہ
ایک قافلہ دوران سفر ایک صحرا میں پہنچا۔ وہاں انہوں نے خدا کے ایک برگزیدہ بندے کو دیکھاکہ میدان میں تپتی ریت پر نماز کی نیت باندھے اس طرح کھڑا ہے جیسے کوئی صحن گلستان میں پہنچ کر مست و بے خود ہو جاتا ہے۔گرمی کی تپش اتنی تھی دیگ کا پانی جوش مارنے لگے لیکن برگزیدہ بندہ نماز میں اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتا ہوا گہری فکر میں غرق تھا۔بہت دیر بعد جب وہ معرفت کی گہرائی میں سے ابھر کر آیا تو حاجیوں نے دیکھا کہ اس کے بازئووں اور چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔جیسے ابھی ابھی وضو کیاہو۔ انہوں نے پوچھا ،یہ پانی کہاں سے آیا؟ زاہد نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر جواب دیا ،اوپر سے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا کہ یہ پانی جب آپ کی خواہش ہوتی ہے تب ملتا ہے یا کبھی یہ خواہش قبول نہیں ہوتی؟ مردِ فقیر نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور کہا ’’اے میرے خالق! ان حاجیوں کی سن۔ ان کے سینے کھول دے اور حق ان پر واضح کر۔ تو نے چونکہ اپنے رحم و کرم سے مجھ پر اس بلندی سے دروازہ کھولا ہے اس لیے میں بلندی سے اپنا رزق مانگنے کا عادی ہوگیا ہوں۔‘‘زاہد اپنے رب سے یہ عرض کر رہی رہا تھا کہ یکایک ایک جانب سے کالی گھٹا اٹھی اور دیکھتے دیکھتے چھاجوں مینہ برسنے لگا۔ پیاسے لوگوںکی تو عید ہوگئی۔ انہوں نے جھٹ پٹ اپنے اپنے مشکیزے بھر لیے۔ اس مرد درویش کی یہ کرامت دیکھ کر ایک گروہ نے اپنے دلوں میں جو بت خانے سجا رکھے تھے ،وہ ڈھا دیئے۔ دوسرے گروہ کے دل میں خدا کی قدرت اور اللہ والوں کی قوت پر یقین کامل ہوا۔ تیسرا گروہ منکروں کا تھا۔ یہ بدنصیب کچے پھل کی مانند ترش کے ترش ہی رہے اور ان کا نقص ہمیشہ قائم رہا۔
ایک قافلہ دوران سفر ایک صحرا میں پہنچا۔ وہاں انہوں نے خدا کے ایک برگزیدہ بندے کو دیکھاکہ میدان میں تپتی ریت پر نماز کی نیت باندھے اس طرح کھڑا ہے جیسے کوئی صحن گلستان میں پہنچ کر مست و بے خود ہو جاتا ہے۔گرمی کی تپش اتنی تھی دیگ کا پانی جوش مارنے لگے لیکن برگزیدہ بندہ نماز میں اپنے پروردگار سے راز و نیاز کرتا ہوا گہری فکر میں غرق تھا۔بہت دیر بعد جب وہ معرفت کی گہرائی میں سے ابھر کر آیا تو حاجیوں نے دیکھا کہ اس کے بازئووں اور چہرے سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہیں۔جیسے ابھی ابھی وضو کیاہو۔ انہوں نے پوچھا ،یہ پانی کہاں سے آیا؟ زاہد نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر جواب دیا ،اوپر سے۔ لوگوں نے پھر عرض کیا کہ یہ پانی جب آپ کی خواہش ہوتی ہے تب ملتا ہے یا کبھی یہ خواہش قبول نہیں ہوتی؟ مردِ فقیر نے آسمان کی جانب نگاہ کی اور کہا ’’اے میرے خالق! ان حاجیوں کی سن۔ ان کے سینے کھول دے اور حق ان پر واضح کر۔ تو نے چونکہ اپنے رحم و کرم سے مجھ پر اس بلندی سے دروازہ کھولا ہے اس لیے میں بلندی سے اپنا رزق مانگنے کا عادی ہوگیا ہوں۔‘‘زاہد اپنے رب سے یہ عرض کر رہی رہا تھا کہ یکایک ایک جانب سے کالی گھٹا اٹھی اور دیکھتے دیکھتے چھاجوں مینہ برسنے لگا۔ پیاسے لوگوںکی تو عید ہوگئی۔ انہوں نے جھٹ پٹ اپنے اپنے مشکیزے بھر لیے۔ اس مرد درویش کی یہ کرامت دیکھ کر ایک گروہ نے اپنے دلوں میں جو بت خانے سجا رکھے تھے ،وہ ڈھا دیئے۔ دوسرے گروہ کے دل میں خدا کی قدرت اور اللہ والوں کی قوت پر یقین کامل ہوا۔ تیسرا گروہ منکروں کا تھا۔ یہ بدنصیب کچے پھل کی مانند ترش کے ترش ہی رہے اور ان کا نقص ہمیشہ قائم رہا۔