M
Maria-Noor
Guest
تیسری دفعہ کا ذکر ہے
تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔
اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا۔ جو جانور نہ تین میں ہوتا نہ تیرہ میں اس جنگل میں گلچھرے اڑاتا۔ دوسرے جنگلوں کی طرح اس جنگل میں بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔ جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا، یہ بادشاہ اس کا تیا پانچا کر دیتا۔
ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں تھا۔ تمام جانور اپنی اپنی دھن میں مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ سب سے زیادہ مست طوطے تھے جو جی بھر کر چُوری کھاتے اور ٹیں ٹیں کر کے اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے، دوسرے طیور آوارہ، حشرات اور جانوروں کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں چونچ دھو کر خوشی سے پروں میں پھولے نہ سماتے۔
وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔ یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا، مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں اس کی چاروں ٹانگیں بری طرح جھلس گئیں اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اب وہ چلنے سے معذور تھا۔ اس عذاب میں بھی وہ اپنی عیاری، شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا، اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے، اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے، لیکن اندر ہی اندر انھیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں شیر کا بچا کھچا گوشت، اوجھڑی، ہڈیاں، پسلیاں، گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
ان گماشتوں میں بجو، لومڑی اور بھیڑیا شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔
سیانے کہتے ہیں کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ بجو، لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور احتجاج پیش کیا۔ بجو نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔
’’مجھے قبروں سے تازہ دفن ہونے والے مردوں کا گوشت بہت پسند ہے، مگر کیا کروں آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔ یہ مظلوم زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ میں تو اس آس پر فربہ جانوروں کو بہلا پھسلا کر یہاں لاتا ہوں کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا، مگر یہاں بھی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا، یہ ہمارا استحصال ہے۔ اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں لا سکتے۔ تمام جانور ہماری فریب کاری، غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ ہماری غداری کا مناسب صلہ ملنا چاہیے۔‘‘
بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا، اس نے بجو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میں علی الصبح ایک ننھا بھیڑیا آپ کے پاس ورغلا کر لاتا جس کا آپ خون پی جاتے اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔ میں نے اب تک ساٹھ بھیڑیے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے، مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کا غدار ضرور ہوں، مگر احمق نہیں۔ مناسب معاوضے کے بغیر میں اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘
وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کو کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔ درندوں کی زندگی میں جب سخت مقام آتے ہیں تو وہ حکمتِ عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں اور نرم رویہ اپنا کر نہ صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں تامل نہیں کرتے۔ شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس نے لومڑی سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’انسانوں کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں آج تک کبھی نہیں مل سکا۔ اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز ناانصافی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم شکار میں سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتلِ عام میں شریکِ جرم نہیں رہ سکتے۔‘‘
شیر یہ سب باتیں سن کر دہاڑا۔ ’’مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔ آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر حصے کیے جائیں گے۔ اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں جانوروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے، ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا۔ لومڑی نے اس سے کہا،
’’اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ، میں تمھیں آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں گی۔‘‘
’’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ چھوٹا ہرن بولا۔’’تم نے وہ مثل نہیں سنی کہ ’’اس ہرنی کی خیر نہیں جو شیر کی جانب جائے گی۔‘‘
بجو بولا۔ ’’ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو؟ میرا دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘
’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا۔
’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے۔‘‘
’’میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ہرن نے فرطَ اشتیاق سے کہا۔ ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔ اسے کون ہٹائے گا؟‘‘
لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی۔ ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں تمھیں بنا دے، اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔ اس کے بعد جنگل میں ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘
ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی، بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں داخل ہو گیا۔ لومڑی، بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔
شیر نے کہا۔ ’’میرا جانشین ہرن ہی ہو گا، ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ تعمیر ہو گی، ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں گے۔ آؤ میرے عزیز ہرن، میں تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران میں اپنی بادشاہت تمھیں منتقل کروں۔‘‘
یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں جا بیٹھا۔ پلک جھپکتے میں شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں پیوست ہو گئے۔ ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں سے ادھیڑ دی۔ اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیے۔ لومڑی، بجو اور بھڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انھیں یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔ وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔
اچانک شیر زور سے دہاڑا۔ شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔ شیر نے کہا۔
’’میں نے حسبِ وعدہ شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘
لومڑی بولی، ’’ اب ہمارے حصے ہمیں دیں۔ کل سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں لائے ہیں۔‘‘
’’چار حصے تو میں نے کر دیے۔‘‘ شیر نے گرج کر کہا۔
’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی کہ پہلا حصہ میں لوں گا کیوں کہ میں علیل ہوں اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا، جسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میری ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے۔‘‘
یہ سن کر لومڑی، بجو اور بھیڑیا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر سے سینگ۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی تحریروں سے انتخاب
تیسری دفعہ کا ذکر ہے کہ تیسری دنیا کے ایک ملک کے تیسرے کنارے پر ایک جنگل تھا۔
اس جنگل میں ظاہر ہے کہ جنگل ہی کا قانون نافذ تھا۔ جو جانور نہ تین میں ہوتا نہ تیرہ میں اس جنگل میں گلچھرے اڑاتا۔ دوسرے جنگلوں کی طرح اس جنگل میں بھی ایک بادشاہ موجود تھا۔ جو بھی اس کے سامنے تین پانچ کرتا، یہ بادشاہ اس کا تیا پانچا کر دیتا۔
ہر طرف زاغ و زغن منڈلاتے پھرتے تھے۔ ہر شاخ پر بوم و شپر کا آشیاں تھا۔ تمام جانور اپنی اپنی دھن میں مگن مستقبل سے بے خبر سانس گن گن کر زندگی کے دن پورے کررہے تھے۔ سب سے زیادہ مست طوطے تھے جو جی بھر کر چُوری کھاتے اور ٹیں ٹیں کر کے اس درندے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتے، دوسرے طیور آوارہ، حشرات اور جانوروں کو سبز باغ دکھاتے اور بہتی گنگا میں چونچ دھو کر خوشی سے پروں میں پھولے نہ سماتے۔
وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی۔ آسمانی بجلی گرنے سے شیر کا غار جل گیا۔ یہ خون آشام درندہ مرنے سے تو بچ گیا، مگر آگ سے بچ نکلنے کی کوشش میں اس کی چاروں ٹانگیں بری طرح جھلس گئیں اور وہ مکمل طور پر اپاہج ہو کر رہ گیا۔ اب وہ چلنے سے معذور تھا۔ اس عذاب میں بھی وہ اپنی عیاری، شقاوت اور لذت ایذا سے باز نہ آیا، اس نے کچھ ایسے گماشتے تلاش کر لیے جس اس کے لیے راتب بھاڑا فراہم کرتے، اس کے بدلے کچھ بچا کھچا مال انھیں بھی مل جاتا جس سے وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھر لیتے، لیکن اندر ہی اندر انھیں یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ انھیں شیر کا بچا کھچا گوشت، اوجھڑی، ہڈیاں، پسلیاں، گردن اور سری پائے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔
ان گماشتوں میں بجو، لومڑی اور بھیڑیا شامل تھے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگل میں نافذ جنگل کے قانون کے خلاف جو بھی صدائے احتجاج بلند کرتا اس کی ہڈی پسلی ایک کر دی جاتی تھی۔
سیانے کہتے ہیں کبھی کبھی کوڑے کے ڈھیر کو بھی اپنی اہمیت کا احساس ہو جاتا ہے۔ بجو، لومڑی اور بھیڑیا ایک شام شیر کے پاس گئے اور احتجاج پیش کیا۔ بجو نے اپنی مکروہ آواز میں کہا۔
’’مجھے قبروں سے تازہ دفن ہونے والے مردوں کا گوشت بہت پسند ہے، مگر کیا کروں آج کل جو بھی مردے دفن کیے جاتے ہیں وہ محض ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کے جسم سے تمام گوشت تو دنیا والے پہلے ہی نوچ لیتے ہیں۔ یہ مظلوم زندہ درگور ہو جاتے ہیں۔ میں تو اس آس پر فربہ جانوروں کو بہلا پھسلا کر یہاں لاتا ہوں کہ مجھے کچھ چربیلا گوشت ملے گا، مگر یہاں بھی سوائے ہڈیوں کے کچھ نہیں ملتا، یہ ہمارا استحصال ہے۔ اپنے جائز حقوق کی بحالی تک ہم مزید شکار نہیں لا سکتے۔ تمام جانور ہماری فریب کاری، غداری اور ضمیر فروشی کی وجہ سے ہم سے بیزار ہیں۔ ہماری غداری کا مناسب صلہ ملنا چاہیے۔‘‘
بھیڑیا جو اپنی لاف زنی کے لیے مشہور تھا، اس نے بجو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہا۔ ’’میں علی الصبح ایک ننھا بھیڑیا آپ کے پاس ورغلا کر لاتا جس کا آپ خون پی جاتے اور تمام گوشت ہڑپ کر جاتے۔ میں نے اب تک ساٹھ بھیڑیے آپ کے ناشتے کے لیے پیش کیے، مگر کبھی مجھے نرم گوشت آپ نے نہیں دیا۔ میں اپنے ساتھیوں کا غدار ضرور ہوں، مگر احمق نہیں۔ مناسب معاوضے کے بغیر میں اب مزید اپنے ساتھی پکڑ کر آپ کے حوالے نہیں کرسکتا۔‘‘
وقت کی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر جاندار کو کبھی نہ کبھی بے بسی کی بھینٹ چڑھا دیتا ہے۔ جنگل کے بادشاہ شیر پر بھی ایسا ہی کٹھن وقت آ گیا تھا۔ درندوں کی زندگی میں جب سخت مقام آتے ہیں تو وہ حکمتِ عملی کے تحت شتر گربہ کی پالیسی اپناتے ہیں اور نرم رویہ اپنا کر نہ صرف اپنا الو سیدھا کرتے ہیں بلکہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے کے لیے گدھے کو بھی اپنا باپ کہنے میں تامل نہیں کرتے۔ شیر نے بڑی خند ہ پیشانی سے یہ سب باتیں خاموشی سے سنیں اور آنکھیں بند کر لیں۔ اب اس نے لومڑی سے مخاطب ہو کر کہا کہ وہ بھی اپنا موقف بیان کرے۔لومڑی نے اپنی قبیح عادت کے مطابق چاپلوسی سے کام لیتے ہوئے جنگل کے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا۔
’’انسانوں کو اپنے ابنائے جنس سے غداری کرنے پر ہر دور میں بھاری انعام ملتے رہے ہیں۔ ہماری ضمیر فروشی کا مناسب معاوضہ ہمیں آج تک کبھی نہیں مل سکا۔ اب ہم مزید یہ شقاوت آمیز ناانصافی برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم شکار میں سے اپنا مساوی حصہ لیے بغیر اب کبھی جانوروں کے بے گنا ہ قتلِ عام میں شریکِ جرم نہیں رہ سکتے۔‘‘
شیر یہ سب باتیں سن کر دہاڑا۔ ’’مجھے تمھارے تمام خیالات سے اتفاق ہے۔ آئندہ تم جو بھی شکار لاؤ گے اس کے چار برابر حصے کیے جائیں گے۔ اب جلدی جاؤ اور ایک نرم و نازک ہرن کو گھیر کر لاؤ ظل تباہی آج کا ناشتہ ہرن کے گوشت سے کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
جنگل کے بادشاہ کا فیصلہ سن کر تینوں جانوروں کے منہ میں پانی بھر آیا اور ان کی آنکھوں میں ایک شیطانی چمک پیدا ہو گئی۔ وہ اسی وقت ایک جھیل پر پہنچے، ایک کم سن ہرن پانی پی رہا تھا۔ لومڑی نے اس سے کہا،
’’اے میرے چاند ادھر میرے ساتھ آ، میں تمھیں آج جنگل کے بادشاہ کی زیارت کے لیے لے جاؤں گی۔‘‘
’’نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ چھوٹا ہرن بولا۔’’تم نے وہ مثل نہیں سنی کہ ’’اس ہرنی کی خیر نہیں جو شیر کی جانب جائے گی۔‘‘
بجو بولا۔ ’’ہرن چاند تم کس قدر خوب صورت ہو؟ میرا دل چاہتا ہے کہ تم ہی ہمارے بادشاہ بن جاؤ۔‘‘
’’ واہ کیا اچھی بات کہی ہے۔‘‘ بھیڑیا بولا۔
’’اگر ہرن جنگل کا بادشاہ بن جائے تو انقلاب آ جائے گا۔ ہرن راج آج وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح جنگل کے جانور تیزی سے آگے بڑھ سکیں گے۔‘‘
’’میں کیسے بادشاہ بن سکتا ہوں؟‘‘ہرن نے فرطَ اشتیاق سے کہا۔ ’’اس وقت جنگل کا بادشاہ تو شیر ہے۔ اسے کون ہٹائے گا؟‘‘
لومڑی نے برف پگھلتی دیکھی تو بولی۔ ’’جنگل کا بادشاہ شیر اس وقت قریب المرگ ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا جانشیں تمھیں بنا دے، اس نے ہمیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہے۔ آج ہی تمھاری تاج پوشی کر دی جائے گی۔ اس کے بعد جنگل میں ہرن راج کا آغاز ہو جائے گا۔‘‘
ہرن اسی وقت آمادہ ہو گیا اور لومڑی، بجو اور بھیڑیے کے ہمراہ لولے لنگڑے جنگل کے بادشاہ کے غار میں داخل ہو گیا۔ لومڑی، بھیڑیے اور بجو نے شیر کو ہرن کے ساتھ طے پانے والی تمام شرائط سے آگاہ کر دیا۔
شیر نے کہا۔ ’’میرا جانشین ہرن ہی ہو گا، ہرن مینار کے بعد اب ہرن کی لاٹھ تعمیر ہو گی، ہر طرف ہرن کے نعرے بلند ہوں گے۔ آؤ میرے عزیز ہرن، میں تمھاری تاج پوشی کی رسم ادا کر کے اپنی ذمہ داری پوری کروں۔آؤ جنگل کے مستقبل کے حکمران میں اپنی بادشاہت تمھیں منتقل کروں۔‘‘
یہ سنتے ہی ہرن نے آؤ دیکھا نہ تاؤ شیر کی آغوش میں جا بیٹھا۔ پلک جھپکتے میں شیر کے دانت ہرن کی شہ رگ میں پیوست ہو گئے۔ ہرن کی شہ رگ کا خون پینے کے بعد شیر نے ہرن کی کھال اپنے نوکیلے پنجوں سے ادھیڑ دی۔ اور تمام گوشت کے چار برابر حصے کر دیے۔ لومڑی، بجو اور بھڑیے کے منہ میں پانی بھر آیا۔ انھیں یقین تھا کہ آج شیر اپنا وعدہ وفا کرے گا۔ وہ سب دل ہی دل میں متاسف تھے کہ اب تک ناحق شیر کی نیت پر شک کرتے تھے۔
اچانک شیر زور سے دہاڑا۔ شیر کی آواز سن کر سارا جنگل گونج اٹھا۔ شیر نے کہا۔
’’میں نے حسبِ وعدہ شکار کے چار حصے کر دیے ہیں۔‘‘
لومڑی بولی، ’’ اب ہمارے حصے ہمیں دیں۔ کل سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔ اس کم بخت ہرن کو بڑی مشکل سے فریب دے کر یہاں لائے ہیں۔‘‘
’’چار حصے تو میں نے کر دیے۔‘‘ شیر نے گرج کر کہا۔
’’اب تقسیم اس طرح سے ہو گی کہ پہلا حصہ میں لوں گا کیوں کہ میں علیل ہوں اور مجھے غذا کی ضرورت ہے۔دوسرا حصہ بھی میرا ہے کیوں کہ میں جنگل کا بادشاہ ہوں، تیسرا حصہ مجھے جنگل کے قانون کی شق آٹھ کے تحت ملے گا، جسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اور رہ گیا آخری اور چوتھا حصہ وہ یہ میری ناک کے نیچے پڑا ہے جس کو ضرورت ہے وہ آگے آئے اور اسے اٹھا کر لے جائے۔‘‘
یہ سن کر لومڑی، بجو اور بھیڑیا وہاں سے ایسے غائب ہوئے جیسے گدے کے سر سے سینگ۔
پروفیسر ڈاکٹر غلام شبیر رانا کی تحریروں سے انتخاب