I
intelligent086
Guest
عمرو عیار کی مدد ۔۔۔۔ تحریر : چشتی عبداللہ حسن
کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ بڑا ظالم بادشاہ تھا۔ آئے دن بادشاہ کے سپاہی ذرا سی بات پر لوگوں کا قتل عام کرتے تھے اگر کوئی بھی شخص بادشاہ کے پاس فریاد لے کر جاتا تو بادشاہ کہتا کہ تم ہمارے سپاہیوں پر الزام لگاتے ہو اس لئے بادشاہ جلاد کو حکم دیتا کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے۔
جلاد فوراً اس کا سر قلم کر دیتا تھا اس لئے کوئی بھی شخص بادشاہ کے خلاف بات کرتا تو بادشاہ کے سپاہی فوراً اس کے گھر سمیت اس کو جلا دیتے تھے۔
بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی نشاط تھا۔ وہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بادشاہ اس کو اتنا پیار کرتا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ اتنا پیار نہ کرتا ہوگا۔ شہزادی نشاط جب 18 برس کی ہوئی تو اس کو ایک خطرناک بیماری نے آ گھیرا۔ حتیٰ کہ اس کا جسم موم کی طرح پگھلتا جا رہا تھا۔ بادشاہ اس بیماری کا کوئی علاج نہ ڈھونڈ سکا۔ شاہی حکیم اب جواب دے چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ جب اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ اس کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے تو بادشاہ بزرگ کے پائوں پر گر پڑا اور غمگین ہو کر اپنی بیٹی کی بیماری کا پوچھنے لگا۔ بزرگ نے کہا’’ اے بادشاہ !یہ تیرے ظلم کی سزا ہے۔ اگر تو اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرتا تو یہ پریشانی تم کو نہ آتی۔ بے شک اللہ مظلوم کی فریاد جلد ہی سن لیتا ہے اگر تم اپنی بیٹی کی صحت یابی دیکھنا چاہتے ہو تو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنا چھوڑ دو، عدل کے ساتھ حکومت کرو، کیا تم یہ کر سکتے ہو پھر میں بتائوں گا کہ تمہاری بیٹی کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’بزرگوار! میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ یہ بات سن کر بزرگ ہنس پڑے اور کہا’’ اب میری بات غور سے سن یہاں سے جنوب کی طرف 12 کوس دورایک سردارکے لشکر نے پڑائو ڈال رکھا ہے اس کا ایک بے حد خاص درباری عمرو عیار ہے اگر وہ بات مان گیا تو سمجھو تمہاری بیٹی کا علاج ہو گیا۔ اب تم انصاف کے ساتھ حکومت چلانا اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کرنا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔ بزرگ کے غائب ہوتے ہی بادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ اسی وقت خدا کے حضور سجدے میں گر پڑا اور رو رو کر معافی مانگنے کے بعدسردار کے لشکر کی طرف چل پڑا۔ بادشاہ کچھ گھنٹوں بعد سردارکے سامنے حاضر ہوا، دعا سلام کے بعد بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی تو سردارنے فوراً عمرو عیار کو بلایا اور اسے بھی بات بتا دی۔ عمرو عیار بولا ’’عالی جاہ! آپ کہتے ہیں تو میں یہ کام کرتا ہوں اور بیماری کا علاج ڈھونڈ لائوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر عمرو عیار باہر کو نکل گیا پھر اپنی طلسمی انگوٹھی سے پوچھا ’’اے طلسمی انگوٹھی مجھے بتائو کہ شہزادی نشاط کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ تو طلسمی انگوٹھی نے بتایا کہ یہاں سے شمال کی طرف3 کوس دور ایک جنگل ہے اس میں ایک سیاہ غار ہے اس کے اندر ایک شیش ناگ رہتا ہے اسے مار کر اس کے منہ سے ایک 7رنگا ہیرا نکال لینا۔ اگر وہ ہیرا شہزادی کے بالوں میں2 دن تک باندھ دیا جائے تو شہزادی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر عمرو عیار اس جنگل کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر ہی دم لیا اور وہ سیاہ غار بھی ڈھونڈ لیا۔ عمرو عیار نے سلیمانی تلوار سے اس شیش ناگ کو مار دیا اور اس کے منہ سے7 رنگا ہیرا نکالا اور بادشاہ کو لے کر اس کے ملک پہنچ گیا جب شہزادی نشاط کے بالوں میں 7 رنگا ہیرا باندھ دیا تو شہزادی کی صحت ٹھیک ہونے لگی۔8 دن بعد شہزاد ی خود بخود چلنے پھرنے لگی یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور عمرو عیار کو اتنا خزانہ دیا کہ اس کی زنبیل بھر گئی۔ یہ دیکھ کر عمرو عیار بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد بادشاہ بھی عدل کے ساتھ حکومت کرنے لگا۔
کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، وہ بڑا ظالم بادشاہ تھا۔ آئے دن بادشاہ کے سپاہی ذرا سی بات پر لوگوں کا قتل عام کرتے تھے اگر کوئی بھی شخص بادشاہ کے پاس فریاد لے کر جاتا تو بادشاہ کہتا کہ تم ہمارے سپاہیوں پر الزام لگاتے ہو اس لئے بادشاہ جلاد کو حکم دیتا کہ اس کا سر قلم کر دیا جائے۔
جلاد فوراً اس کا سر قلم کر دیتا تھا اس لئے کوئی بھی شخص بادشاہ کے خلاف بات کرتا تو بادشاہ کے سپاہی فوراً اس کے گھر سمیت اس کو جلا دیتے تھے۔
بادشاہ کی ایک ہی بیٹی تھی جس کا نام شہزادی نشاط تھا۔ وہ بادشاہ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ بادشاہ اس کو اتنا پیار کرتا کہ کوئی باپ اپنی بیٹی کے ساتھ اتنا پیار نہ کرتا ہوگا۔ شہزادی نشاط جب 18 برس کی ہوئی تو اس کو ایک خطرناک بیماری نے آ گھیرا۔ حتیٰ کہ اس کا جسم موم کی طرح پگھلتا جا رہا تھا۔ بادشاہ اس بیماری کا کوئی علاج نہ ڈھونڈ سکا۔ شاہی حکیم اب جواب دے چکے تھے۔ ایک دن بادشاہ جب اپنے بستر پر سو رہا تھا کہ اس کے خواب میں ایک بزرگ تشریف لائے تو بادشاہ بزرگ کے پائوں پر گر پڑا اور غمگین ہو کر اپنی بیٹی کی بیماری کا پوچھنے لگا۔ بزرگ نے کہا’’ اے بادشاہ !یہ تیرے ظلم کی سزا ہے۔ اگر تو اللہ کی مخلوق پر ظلم نہ کرتا تو یہ پریشانی تم کو نہ آتی۔ بے شک اللہ مظلوم کی فریاد جلد ہی سن لیتا ہے اگر تم اپنی بیٹی کی صحت یابی دیکھنا چاہتے ہو تو اللہ کی مخلوق پر ظلم کرنا چھوڑ دو، عدل کے ساتھ حکومت کرو، کیا تم یہ کر سکتے ہو پھر میں بتائوں گا کہ تمہاری بیٹی کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے‘‘۔ بادشاہ نے کہا ’’بزرگوار! میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘ یہ بات سن کر بزرگ ہنس پڑے اور کہا’’ اب میری بات غور سے سن یہاں سے جنوب کی طرف 12 کوس دورایک سردارکے لشکر نے پڑائو ڈال رکھا ہے اس کا ایک بے حد خاص درباری عمرو عیار ہے اگر وہ بات مان گیا تو سمجھو تمہاری بیٹی کا علاج ہو گیا۔ اب تم انصاف کے ساتھ حکومت چلانا اور کسی کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی نہیں کرنا کیونکہ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر بزرگ غائب ہو گئے۔ بزرگ کے غائب ہوتے ہی بادشاہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ اسی وقت خدا کے حضور سجدے میں گر پڑا اور رو رو کر معافی مانگنے کے بعدسردار کے لشکر کی طرف چل پڑا۔ بادشاہ کچھ گھنٹوں بعد سردارکے سامنے حاضر ہوا، دعا سلام کے بعد بادشاہ نے اپنی پریشانی بتائی تو سردارنے فوراً عمرو عیار کو بلایا اور اسے بھی بات بتا دی۔ عمرو عیار بولا ’’عالی جاہ! آپ کہتے ہیں تو میں یہ کام کرتا ہوں اور بیماری کا علاج ڈھونڈ لائوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر عمرو عیار باہر کو نکل گیا پھر اپنی طلسمی انگوٹھی سے پوچھا ’’اے طلسمی انگوٹھی مجھے بتائو کہ شہزادی نشاط کیسے ٹھیک ہو سکتی ہے؟ تو طلسمی انگوٹھی نے بتایا کہ یہاں سے شمال کی طرف3 کوس دور ایک جنگل ہے اس میں ایک سیاہ غار ہے اس کے اندر ایک شیش ناگ رہتا ہے اسے مار کر اس کے منہ سے ایک 7رنگا ہیرا نکال لینا۔ اگر وہ ہیرا شہزادی کے بالوں میں2 دن تک باندھ دیا جائے تو شہزادی صحت یاب ہو سکتی ہے۔ یہ سن کر عمرو عیار اس جنگل کی طرف چل پڑا اور وہاں پہنچ کر ہی دم لیا اور وہ سیاہ غار بھی ڈھونڈ لیا۔ عمرو عیار نے سلیمانی تلوار سے اس شیش ناگ کو مار دیا اور اس کے منہ سے7 رنگا ہیرا نکالا اور بادشاہ کو لے کر اس کے ملک پہنچ گیا جب شہزادی نشاط کے بالوں میں 7 رنگا ہیرا باندھ دیا تو شہزادی کی صحت ٹھیک ہونے لگی۔8 دن بعد شہزاد ی خود بخود چلنے پھرنے لگی یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا اور عمرو عیار کو اتنا خزانہ دیا کہ اس کی زنبیل بھر گئی۔ یہ دیکھ کر عمرو عیار بہت خوش ہوا۔ اس کے بعد بادشاہ بھی عدل کے ساتھ حکومت کرنے لگا۔
Umro Ayyar Ki Madad By Chishti Addullah Hassan