I
intelligent086
Guest
ذہین سوداگر ۔۔۔۔ انعم خالد
بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک ظالم بادشاہ تھا۔اس کا رویہ اپنی سلطنت کے لوگوں کے ساتھ بے حد ظالمانہ تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا جن کے ذریعے لوگوں سے ٹیکس جمع کر سکے ۔
بادشاہ ہر وقت ایسے لوگوں سے گھرا ہوا رہتا، جو اس کے غلط کاموں کی تعریف کرتے اور جو لوگ اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے ان کو ناپسند کرتا تھا۔ اس کی بادشاہی میں ایک بہت ذہین سوداگر تھا اور بادشاہ اس کو بہت ناپسند کرتا تھا۔
ایک دن سوداگربادشاہ کی عدالت میں حاضر تھا اور بادشاہ کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہنے لگا:
ــــ’’ایک شخص اپنی زندگی کو پورا کر سکتا ہے،جب تک کہ وہ اپنے ذہن کا استعمال کرے‘‘۔ سوداگر کی یہ بات سننے کے بعد بادشاہ بہت ناراض ہوا، اور حکم دیا کہ سوداگر اور اس کے خاندان کوایک مہینے کے لئے اصطبل میں بغیرکوئی کام کیے رہنا پڑے گا، اور اس مہینے کے آخر میں صرف اپنے ذہن کا استعمال کر کے 1000 سونے کے سکے جمع کر کے بادشاہ کو دینے ہوںگے۔
تاہم، سوداگر کے پاس بادشاہ کے حکم کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سوداگر نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے ساتھ اپناترازولے جائیں ، اور بادشاہ نے اس کی اس بات پر اتفاق کیا۔ اگلے دن سوداگر اپنے خاندان کے ساتھ اصطبل میں رہنے چلا گیا۔ سوداگر کچھ دیر بیٹھ کر سوچتا رہا، کہ وہ سونے کے سکے حاصل کرنے کے لئے کیا کرے؟تب اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ اٹھا اور گھوڑے کی کھاد کو اپنے ترازو سے ناپنا شروع کر دیا۔ سوداگر کو ایسا کرتے دیکھ کر گھوڑے کے رکھوالے اس پر ہنسنے لگے اور سوچنے لگے کہ سوداگر پاگل ہو گیا ہے ۔
پھر ایک رکھوالے نے سوداگر سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہیں؟ سوداگر نے جواب دیا: ـ ’’ مجھے بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ میں ان کے شاہی گھوڑوں کی کھاد کو ناپوں اور دیکھوں کے گھوڑوں کو کافی خوراک مل رہی ہے کہ نہیں‘‘۔سوداگر نے ہر گھوڑے کی کھدائی ناپی اور اسے پتہ چلا کہ کچھ گھوڑوں کی خوراک بہت کم تھی۔ سوداگر پہلے سے ہی جانتا تھا کہ کچھ رکھوالے بازار میں گھوڑوں کی خوراک فروخت کر رہے تھے۔ سب رکھوالے سوداگر سے گزارش کرنے لگے کے وہ یہ سب بادشاہ کو نہ بتائے اور اس کے بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھے۔ سوداگر نے ان سے بولا کہ جو سکے ان کو گھوڑے کی خوراک فروخت کرنے سے ملیں وہ سب سکے اس کو دے دیں۔ اور اس کے خاندان کو کھانا بھی کھلائے۔ رکھوالو ں نے اس کی بات مان لی۔
ایک مہینے کے بعد ، سوداگر نے 1000 سونے کے سکے جمع کر کے بادشاہ کو دئیے، جس پر بادشاہ بہت حیران تھااور اسے یقین نہیں آیا کہ سوداگر نے بعیر کام کہ یہ سکے جمع کیے۔ لہذا بادشاہ نے سوداگر کو حکم دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ دریا کے قریب ایک جھونپڑے میں رہیں ، اور اس بار بغیر کوئی کام کے2000 سونے کے سکے جمع کر کے دکھائیں۔ بادشاہ نے ایساحکم صرف سوداگرکے ذہن کی آزمائش کے لیے دیا۔
سوداگر نے پھر سے بادشاہ سے اپنے ترازو کو ساتھ لے کر جانے کی اجازت مانگی ، اور بادشاہ مان گیا۔ سوداگر اور اس کا خاندان دریا کے قریب ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہنے لگے۔سوداگر نے اپنے ترازو سے پانی کو تولنا شروع کر دیا۔ملاحوں نے سوداگر کو ایسا کرتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا تھا؟سوداگر نے جواب دیا: ’’بادشاہ نے اس کو حکم دیا ہے، کہ پتا کروںکون سا ملاح اپنی کشتی میں اضافی مسافروں کو لے جا رہا ہے‘‘۔
یہ سن کر سب ملاح پریشان ہو گئے، کیونکہ تمام ملاح اپنی کشتی میں زیادہ مسافر لے کر جا رہے تھے۔ انہوں نے سوداگر سے درخواست کی کہ وہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے، اور بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھے۔
سوداگر نے ملاحوں سے کہا کہ وہ اپنی کشتیوں میں زیادہ مسافر نہ لے کر جائیں اور جو سکے انہوں نے پہلے حاصل کیے تھے وہ اسے دے دیں۔ اس طرح سوداگر نے مہینے کے آخر میں بادشاہ کو2000 سونے کے سکے جمع کر کے دے دیئے۔
ا س طر ح بادشاہ کو سوداگر کی بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ’’ایک شخص اپنی زندگی کو پورا کر سکتا ہے،جب تک کہ وہ اپنے ذہن کا استعمال کرے‘‘۔
بہت پہلے کی بات ہے۔ ایک ظالم بادشاہ تھا۔اس کا رویہ اپنی سلطنت کے لوگوں کے ساتھ بے حد ظالمانہ تھا۔ وہ ہمیشہ نت نئے طریقوں کی تلاش میں رہتا جن کے ذریعے لوگوں سے ٹیکس جمع کر سکے ۔
بادشاہ ہر وقت ایسے لوگوں سے گھرا ہوا رہتا، جو اس کے غلط کاموں کی تعریف کرتے اور جو لوگ اس کے غلط کاموں کی نشاندہی کرتے ان کو ناپسند کرتا تھا۔ اس کی بادشاہی میں ایک بہت ذہین سوداگر تھا اور بادشاہ اس کو بہت ناپسند کرتا تھا۔
ایک دن سوداگربادشاہ کی عدالت میں حاضر تھا اور بادشاہ کے ساتھ بحث کرتے ہوئے کہنے لگا:
ــــ’’ایک شخص اپنی زندگی کو پورا کر سکتا ہے،جب تک کہ وہ اپنے ذہن کا استعمال کرے‘‘۔ سوداگر کی یہ بات سننے کے بعد بادشاہ بہت ناراض ہوا، اور حکم دیا کہ سوداگر اور اس کے خاندان کوایک مہینے کے لئے اصطبل میں بغیرکوئی کام کیے رہنا پڑے گا، اور اس مہینے کے آخر میں صرف اپنے ذہن کا استعمال کر کے 1000 سونے کے سکے جمع کر کے بادشاہ کو دینے ہوںگے۔
تاہم، سوداگر کے پاس بادشاہ کے حکم کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سوداگر نے بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ اپنے ساتھ اپناترازولے جائیں ، اور بادشاہ نے اس کی اس بات پر اتفاق کیا۔ اگلے دن سوداگر اپنے خاندان کے ساتھ اصطبل میں رہنے چلا گیا۔ سوداگر کچھ دیر بیٹھ کر سوچتا رہا، کہ وہ سونے کے سکے حاصل کرنے کے لئے کیا کرے؟تب اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ اٹھا اور گھوڑے کی کھاد کو اپنے ترازو سے ناپنا شروع کر دیا۔ سوداگر کو ایسا کرتے دیکھ کر گھوڑے کے رکھوالے اس پر ہنسنے لگے اور سوچنے لگے کہ سوداگر پاگل ہو گیا ہے ۔
پھر ایک رکھوالے نے سوداگر سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہیں؟ سوداگر نے جواب دیا: ـ ’’ مجھے بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ میں ان کے شاہی گھوڑوں کی کھاد کو ناپوں اور دیکھوں کے گھوڑوں کو کافی خوراک مل رہی ہے کہ نہیں‘‘۔سوداگر نے ہر گھوڑے کی کھدائی ناپی اور اسے پتہ چلا کہ کچھ گھوڑوں کی خوراک بہت کم تھی۔ سوداگر پہلے سے ہی جانتا تھا کہ کچھ رکھوالے بازار میں گھوڑوں کی خوراک فروخت کر رہے تھے۔ سب رکھوالے سوداگر سے گزارش کرنے لگے کے وہ یہ سب بادشاہ کو نہ بتائے اور اس کے بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار تھے۔ سوداگر نے ان سے بولا کہ جو سکے ان کو گھوڑے کی خوراک فروخت کرنے سے ملیں وہ سب سکے اس کو دے دیں۔ اور اس کے خاندان کو کھانا بھی کھلائے۔ رکھوالو ں نے اس کی بات مان لی۔
ایک مہینے کے بعد ، سوداگر نے 1000 سونے کے سکے جمع کر کے بادشاہ کو دئیے، جس پر بادشاہ بہت حیران تھااور اسے یقین نہیں آیا کہ سوداگر نے بعیر کام کہ یہ سکے جمع کیے۔ لہذا بادشاہ نے سوداگر کو حکم دیا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ دریا کے قریب ایک جھونپڑے میں رہیں ، اور اس بار بغیر کوئی کام کے2000 سونے کے سکے جمع کر کے دکھائیں۔ بادشاہ نے ایساحکم صرف سوداگرکے ذہن کی آزمائش کے لیے دیا۔
سوداگر نے پھر سے بادشاہ سے اپنے ترازو کو ساتھ لے کر جانے کی اجازت مانگی ، اور بادشاہ مان گیا۔ سوداگر اور اس کا خاندان دریا کے قریب ایک چھوٹے سے جھونپڑے میں رہنے لگے۔سوداگر نے اپنے ترازو سے پانی کو تولنا شروع کر دیا۔ملاحوں نے سوداگر کو ایسا کرتے دیکھا تو اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا تھا؟سوداگر نے جواب دیا: ’’بادشاہ نے اس کو حکم دیا ہے، کہ پتا کروںکون سا ملاح اپنی کشتی میں اضافی مسافروں کو لے جا رہا ہے‘‘۔
یہ سن کر سب ملاح پریشان ہو گئے، کیونکہ تمام ملاح اپنی کشتی میں زیادہ مسافر لے کر جا رہے تھے۔ انہوں نے سوداگر سے درخواست کی کہ وہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے، اور بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کے لیے تیار تھے۔
سوداگر نے ملاحوں سے کہا کہ وہ اپنی کشتیوں میں زیادہ مسافر نہ لے کر جائیں اور جو سکے انہوں نے پہلے حاصل کیے تھے وہ اسے دے دیں۔ اس طرح سوداگر نے مہینے کے آخر میں بادشاہ کو2000 سونے کے سکے جمع کر کے دے دیئے۔
ا س طر ح بادشاہ کو سوداگر کی بات سے اتفاق کرنا پڑا کہ’’ایک شخص اپنی زندگی کو پورا کر سکتا ہے،جب تک کہ وہ اپنے ذہن کا استعمال کرے‘‘۔