I
intelligent086
Guest
زندگی کا درس ۔۔۔۔ تحریر : عرفان احمد انصاری
شام ہونے ہی والی تھی،سورج ڈوب رہا تھا۔چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی تھی لیکن شکیل کے دل میں امیدوں کے طوفان اٹھ رہے تھے وہ خوش ہوتے ہوئے بھی پریشان ساتھا۔کل اس کا ہائی سکول کا نتیجہ آنے والا تھا۔
شکیل کو پورا یقین تھا کہ وہ اس بار سکول میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر کے میڈل جیت لے گا،اور ہر سال سکول میں ٹاپ کرنے والے طالب عمل عمیر کو پچھاڑ دے گاکیونکہ اس بار شکیل نے ہر سال کے مقابلے میں زیادہ محنت کی تھی۔عمیر ،شکیل کا دوست تھا جو درجہ 7سے اس کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔عمیر کے آنے سے قبل شکیل ہر بار سکول میں ٹاپ کرتا تھا،لیکن جب سے عمیر نے اسی سکول میں داخلہ لیا تھا شکیل کی یہ امید کھو گئی تھی۔عمیر بھی پڑھائی میں کسی سے کم نہیں تھا اس لیے شکیل ہر وقت اسے پچھاڑنے کی کوشش کرتا تھا۔سکول میں ٹاپ کرنے کی فکر میں شکیل کی راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی۔اب شکیل کو بے صبری سے صبح کا انتظار تھا کہ جانے کل کیا نتیجہ نکلے گا۔شکیل کے دل میں بس ایک ہی آرزو تھی کہ چاہے جو بھی ہو جائے اس کے نمبر عمیر سے کسی صورت کم نہ ہوں۔انہی خیالوں میں اس کی آنکھ لگ گئی۔صبح اٹھ کر ناشتے سے فارغ ہو کر صبح 7 بجے سکول کے لیے وہ روانہ ہو گیا۔سکول پہنچ کر اس نے دیکھا کہ تمام طلباء وہاں پہنچ چکے تھے لیکن اب تک عمیر سکول سے غیر حاضر تھا۔عمیر کو سکول میں نہ پا کر اسے بے حد تعجب ہوا کیونکہ شکیل کو یقین تھا کہ جس بے صبری سے وہ نتیجے کا انتظار کر رہا ہے عمیر بھی جلد از جلد اپنے نمبر اور پوزیشن جاننا چاہتا ہو گا۔دوسرے ساتھیوں سے پوچھنے پر بھی اس کا صحیح پتہ نہ چل سکا اور ایک بات عجیب یہ تھی کہ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی اپنے وقت پر نہیں پہنچ پائے تھے۔تقریباً1 گھنٹے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب بھی آ گئے۔سبھی کو بے صبری سے انتظار تھا کہ جلد از جلد نتیجہ سنایا جائے۔پورا ہال طلباء اور اساتذہ سے بھرا ہوا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ہیڈ ماسٹر صاحب پروگرام میں تشریف لائے اور پھر سبھی کو اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے بولے کہ اس بار سکول کا پہلا تمغہ شکیل کو جاتا ہے۔یہ سن کر شکیل کی خوشی کی انتہا نہ رہی لیکن تبھی ہیڈ ماسٹر صاحب پھر گویا ہوئے’’لیکن آج میں اپنے سکول کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک اور تمغہ بھی دینے جا رہا ہوں۔جسے بہادری اور انسانی ہمدردی کا تمغہ کہا جائے گا،اور مجھے یہ بتاتے ہوئے نہایت فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اس تمغے کا حقدار ہمارے سکول کا ہونہار طالبعلم عمیر ہے۔‘‘یہ سنتے ہی شکیل کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور وہ وجہ جاننے کے لیے بے چین ہو گیا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب قدرے توقف کے بعد بولے’’آج صبح جب میں سکول آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ شکیل اور عمیر ایک دوسرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر سکول کی طرف آ رہے تھے۔ان کے پیچھے ایک راہ گیر جسے کم دکھائی دیتا تھا سڑک پار کرنا چاہتا تھا۔اس نے اپنی دھندلی آنکھوں سے شکیل کو دیکھ کر اسے مدد کے لیے پکار ا، لیکن شکیل جو شاید جلدی سکول آنا چاہتا تھا اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا ۔ کہیں سے مدد نہ ملنے پر وہ اکیلے ہی سڑک پار کرنے لگا کہ اسی بیچ کار آ گئی اور پیچھے سے آتے عمیر نے خود کو خطرے میں ڈال کر راہ گیر کو تو راستے سے ہٹا دیا لیکن وہ خود کار کی زد میں آ گیا۔عمیر اس وقت ہسپتال میں ہے اور خطرے سے باہر ہے۔عمیر کو لے کر ہسپتال جانے کی وجہ سے ہی مجھے سکول پہنچنے میں دیر ہو گئی۔‘‘
اپنی ٹرافی ہاتھ میں تھامے بوجھل قدموں سے گھر واپس جاتے ہوئے شکیل سوچ رہا تھا کہ اس نے سکول میں تو ٹاپ کر لیا،لیکن خدمت خلق اور کردار میں عمیر اس سے کہیں زیادہ نمبر لے گیا۔اسی سوچ کے ساتھ شکیل کے گھر کی جانب بڑھتے قدم دوسری طرف مُڑ گئے ۔وہ جلد از جلد اپنی ٹرافی عمیر کو پیش کرنا چاہتا تھا۔
شام ہونے ہی والی تھی،سورج ڈوب رہا تھا۔چاروں طرف خاموشی ہی خاموشی تھی لیکن شکیل کے دل میں امیدوں کے طوفان اٹھ رہے تھے وہ خوش ہوتے ہوئے بھی پریشان ساتھا۔کل اس کا ہائی سکول کا نتیجہ آنے والا تھا۔
شکیل کو پورا یقین تھا کہ وہ اس بار سکول میں سب سے زیادہ نمبر حاصل کر کے میڈل جیت لے گا،اور ہر سال سکول میں ٹاپ کرنے والے طالب عمل عمیر کو پچھاڑ دے گاکیونکہ اس بار شکیل نے ہر سال کے مقابلے میں زیادہ محنت کی تھی۔عمیر ،شکیل کا دوست تھا جو درجہ 7سے اس کے ساتھ پڑھ رہا تھا۔عمیر کے آنے سے قبل شکیل ہر بار سکول میں ٹاپ کرتا تھا،لیکن جب سے عمیر نے اسی سکول میں داخلہ لیا تھا شکیل کی یہ امید کھو گئی تھی۔عمیر بھی پڑھائی میں کسی سے کم نہیں تھا اس لیے شکیل ہر وقت اسے پچھاڑنے کی کوشش کرتا تھا۔سکول میں ٹاپ کرنے کی فکر میں شکیل کی راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی۔اب شکیل کو بے صبری سے صبح کا انتظار تھا کہ جانے کل کیا نتیجہ نکلے گا۔شکیل کے دل میں بس ایک ہی آرزو تھی کہ چاہے جو بھی ہو جائے اس کے نمبر عمیر سے کسی صورت کم نہ ہوں۔انہی خیالوں میں اس کی آنکھ لگ گئی۔صبح اٹھ کر ناشتے سے فارغ ہو کر صبح 7 بجے سکول کے لیے وہ روانہ ہو گیا۔سکول پہنچ کر اس نے دیکھا کہ تمام طلباء وہاں پہنچ چکے تھے لیکن اب تک عمیر سکول سے غیر حاضر تھا۔عمیر کو سکول میں نہ پا کر اسے بے حد تعجب ہوا کیونکہ شکیل کو یقین تھا کہ جس بے صبری سے وہ نتیجے کا انتظار کر رہا ہے عمیر بھی جلد از جلد اپنے نمبر اور پوزیشن جاننا چاہتا ہو گا۔دوسرے ساتھیوں سے پوچھنے پر بھی اس کا صحیح پتہ نہ چل سکا اور ایک بات عجیب یہ تھی کہ ہیڈ ماسٹر صاحب بھی اپنے وقت پر نہیں پہنچ پائے تھے۔تقریباً1 گھنٹے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب بھی آ گئے۔سبھی کو بے صبری سے انتظار تھا کہ جلد از جلد نتیجہ سنایا جائے۔پورا ہال طلباء اور اساتذہ سے بھرا ہوا تھا۔تھوڑی ہی دیر بعد ہیڈ ماسٹر صاحب پروگرام میں تشریف لائے اور پھر سبھی کو اپنی طرف مخاطب کرتے ہوئے بولے کہ اس بار سکول کا پہلا تمغہ شکیل کو جاتا ہے۔یہ سن کر شکیل کی خوشی کی انتہا نہ رہی لیکن تبھی ہیڈ ماسٹر صاحب پھر گویا ہوئے’’لیکن آج میں اپنے سکول کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک اور تمغہ بھی دینے جا رہا ہوں۔جسے بہادری اور انسانی ہمدردی کا تمغہ کہا جائے گا،اور مجھے یہ بتاتے ہوئے نہایت فخر محسوس ہو رہا ہے کہ اس تمغے کا حقدار ہمارے سکول کا ہونہار طالبعلم عمیر ہے۔‘‘یہ سنتے ہی شکیل کے چہرے کا رنگ فق ہو گیا اور وہ وجہ جاننے کے لیے بے چین ہو گیا۔
ہیڈ ماسٹر صاحب قدرے توقف کے بعد بولے’’آج صبح جب میں سکول آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ شکیل اور عمیر ایک دوسرے سے تھوڑے ہی فاصلے پر سکول کی طرف آ رہے تھے۔ان کے پیچھے ایک راہ گیر جسے کم دکھائی دیتا تھا سڑک پار کرنا چاہتا تھا۔اس نے اپنی دھندلی آنکھوں سے شکیل کو دیکھ کر اسے مدد کے لیے پکار ا، لیکن شکیل جو شاید جلدی سکول آنا چاہتا تھا اسے نظر انداز کرکے آگے بڑھ گیا ۔ کہیں سے مدد نہ ملنے پر وہ اکیلے ہی سڑک پار کرنے لگا کہ اسی بیچ کار آ گئی اور پیچھے سے آتے عمیر نے خود کو خطرے میں ڈال کر راہ گیر کو تو راستے سے ہٹا دیا لیکن وہ خود کار کی زد میں آ گیا۔عمیر اس وقت ہسپتال میں ہے اور خطرے سے باہر ہے۔عمیر کو لے کر ہسپتال جانے کی وجہ سے ہی مجھے سکول پہنچنے میں دیر ہو گئی۔‘‘
اپنی ٹرافی ہاتھ میں تھامے بوجھل قدموں سے گھر واپس جاتے ہوئے شکیل سوچ رہا تھا کہ اس نے سکول میں تو ٹاپ کر لیا،لیکن خدمت خلق اور کردار میں عمیر اس سے کہیں زیادہ نمبر لے گیا۔اسی سوچ کے ساتھ شکیل کے گھر کی جانب بڑھتے قدم دوسری طرف مُڑ گئے ۔وہ جلد از جلد اپنی ٹرافی عمیر کو پیش کرنا چاہتا تھا۔
Zindagi Ka dars By Irfan Ahmad Ansari